البحث

عبارات مقترحة:

الرحيم

كلمة (الرحيم) في اللغة صيغة مبالغة من الرحمة على وزن (فعيل) وهي...

الكريم

كلمة (الكريم) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل)، وتعني: كثير...

الحفيظ

الحفظُ في اللغة هو مراعاةُ الشيء، والاعتناءُ به، و(الحفيظ) اسمٌ...

صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ نے فرمایا: "مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے آسودہ حالی ملتی ہے اور اس پر وہ شکر کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہو ہے اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے"۔

شرح الحديث :

رسول اللہ نے پسندیدگی کے انداز میں مومن کے حال پر تعجب کا اظہار فرمایا؛ کیوں کہ وہ اپنے تمام احوال اور دنیاوی اتار چڑھاؤ میں خیر و فلاح اور کامیابی ہی میں رہتا ہےاور یہ خیر صرف اور صرف مومن ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ پھر نبی نے بتایا کہ اللہ تعالی نے مومن کے ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی مقدر رکھا ہے۔ اگر اسے کوئی تنگی ومصیبت پہنچتی ہے اور وہ اللہ کی تقدیر پر صبر کرتا ہے اور اللہ کی طرف سے کشادگی کا منتظر اور اس سے اجر و ثواب کا امیدوار رہتا ہے، تو یہ بات اس کے لیے باعثِ خیر ہوتی ہے۔ اور اگر اسے کوئی خوش کن بات پیش آئے مثلا کوئی دینی نعمت کا حصول ہو، جیسے علم یا عمل صالح یا پھر کوئی دنیوی نعمت ملے، جیسے مال، اولاد نرینہ اور اہل و عیال، تو اس پر شکر گزار ہوتا ہے، بایں طور کہ اللہ عز و جل کی اطاعت پر کاربند رہتا ہے، چنانچہ اللہ اس کی قدر کرتا ہے، تو یہ بات اس کے لیے باعثِ خیر ہوتی ہے۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية