القادر
كلمة (القادر) في اللغة اسم فاعل من القدرة، أو من التقدير، واسم...
ایسی صفت جو انسان کو بطیبِ خاطر بغیر کسی معاوضے کے کارِ خیر کرنے پر ابھارتی ہے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ۔
’كَرَم‘: یہ عظیم اور بلند ہمت لوگوں کی صفات میں سے ہے۔ یہ ایک نفسانی صفت ہے جو انسان کو بلا معاوضہ اچھائی کرنے پر اُبھارتی ہے۔ ’كَرَم‘ کی صفت کبھی فطری ہوتی ہے یعنی اس پر آدمی کی پیدائشی ہوئی ہے۔ اور کبھی کسبی ہوتی ہے یعنی اس صفت سے اپنے آپ کو مزین کیا جا سکتا ہے۔’كَرَم‘ کی صفت صرف مال خرچ کرنے میں محصور نھیں ہے، بلکہ اس کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ چنانچہ وہ مال کے ذریعہ، جاہ ومرتبہ کے ذریعہ، وقت کے ذریعہ اور جان وغیرہ کے ذریعہ کرم و سخاوت کو شامل ہے۔ اگر وہ مال دے کر ہو تو یہ سخاوت ہے اور اگر وہ قدرت کے باوجود ضرر رسانی سے باز رہنے کے ذریعہ ہو تو وہ عفو ودرگزر ہے اور اگر وہ جان کی قربانی دے کر ہو تو شجاعت اور بہادری ہے۔ ’كَرَم‘ کی دو قسمیں ہیں: 1- خالق کا کرم: یہ ایک کامل کرم ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے شایانِ شان ہے۔ یہ قرآن وحدیث میں ثابت شدہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے: الکریم اور الاکرم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بھی کرم کے ساتھ متصف کیا ہے، اس کے قائل عز وجل کے کریم ہونے کے سبب۔ اور اس لیے بھی کہ یہ فیاض وسخی، بہت زیادہ خیر اور برکت والا ہے جو اپنے پڑھنے والے کو ثواب اور علم و ادب عطا کرتا ہے۔ 2- مخلوق کا کرم: یہ ایسا کرم ہے جو مخلوق کی کمزوری اور ان کی محتاجی کے مطابق ہوتا ہے۔
كَرَم کا لغوی معنیٰ ہے: شرف و عزت۔ کہا جاتا ہے: ”كَرُمَ الرَّجُلُ، كَرَماً وكَرامَةً“ یعنی وہ شریف الطبع ہوا، یا صاحبِ عزت ہوا۔ ’كَرَم‘ کا اصل معنی ہے: سخاوت اور بہت زیادہ خیر۔ اس کی ضد ہے: بُخل اور لُوم (کمینہ پن)۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".