الرفيق
كلمة (الرفيق) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) من الرفق، وهو...
متنازع فریقین میں سے ہر ایک کا اپنی بات کے اثبات اور دوسرے کی بات کی تردید کے لیے اپنی حجت پیش کرنا۔
جدل: مختلف نقطۂ نظر کے حامل دو افراد کا دلائل و براہین کو پیش کرتے ہوئے ایک دوسرے سے مخاطب ہونا اور باہم گفتگو کرنا بایں طور کہ ان میں سے ہر ایک کا مقصد اپنے مدِ مقابل پر غالب ہونا اور اس سے اپنی بات منوانا ہو۔ دین میں جدل کی دو قسمیں ہیں: 1۔ قابلِ تعریف جدل: اس سے مراد وہ جدل ہے جس کا مقصد صحیح ہو جیسے حق کو ثابت کرنا، درست بات کو ظاہر کرنا، باطل کا رد کرنا، شبہات واوہام کا ازالہ کرنا، مدِ مقابل کو لا جواب کرنا اور اس کی باطل گوئی سے اسے خاموش کرانا، دلائل میں فرق کرنا اور دلائل صحیحہ اور دلائل فاسدہ کی وضاحت کرنا، مومنوں کو حق پر ثابت قدم رکھنا اور اس پر ان کے ایمان و یقین کو بڑھانا۔ 2۔ قابلِ مذمت جدل: اس سے مراد وہ جدل ہے جس کا مقصد فاسد ہو جیسے حق کو رد کرنا، باطل کا اظہار اور اس کی نشر و اشاعت کرنا، یا لوگوں کے درمیان شہرت اور برتری چاہنا وغیرہ۔
الجَدَل: سخت لڑائی جھگڑا۔ ”المُجَادَلة“ اور ”الجِدَال“ کا معنی ہے: باہم مناظرہ کرنا اور جھگڑنا۔ کہا جاتا ہے: جادَلَهُ یعنی اس نے اس کے ساتھ مناظرہ اور بحث کیا۔ اس کا معنی غالب ہونا بھی آتا ہے۔ یہ دراصل ”الجَدْل“ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے: قوت اور سختی۔ اسی معنی کے اعتبار سے مناظرہ کو جَدَل کا نام دیا گیا کیونکہ اس میں قوت و شدت کا اظہار ہوتا ہے۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".