الحافظ
الحفظُ في اللغة هو مراعاةُ الشيء، والاعتناءُ به، و(الحافظ) اسمٌ...
ایسے الفاظ جن میں صحیح اور غلط دونوں معانی کا احتمال ہو؛ بایں طور کہ تفصیل اور توضیح طلب کرنے کے بعد ہی ان کے معانی کا ادراک ہوسکے۔
مجمل کلمات: ایسے مشترک الفاظ جو صحیح اور غلط دونوں قسم کے معانی کے درمیان مشترک ہوں۔ یہ الفاظ کتاب وسنت میں وارد نہیں ہوئے ہیں؛ بلکہ یہ اہلِ کلام کے اطلاقات ہیں اور ایسے کلمات سے اُن کا مقصد اللہ تعالیٰ کو نقائص سے خالی ثابت کرنے کے نام پر اس کی صفات کی نفی وانکار تک پہنچنا ہے۔ ان کلمات کے سلسلے میں اہلِ سنت کا موقف یہ ہے کہ وہ ان میں توقف اختیار کرتے ہیں، اس لیے کہ کتاب وسنت میں ان کی نفی واثبات کچھ بھی ثابت نہیں ہے، لہذا وہ نہ تو ان کا اثبات کرتے ہیں اور نہ نفی۔ جہاں تک ان کے ضمن میں آنے والے معانی کا تعلق ہے، تو وہ ان کے بارے میں تفصیل طلب کرتے ہیں، اگر اُن سے باطل معنی مراد ہوتا ہے، تو اس کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ کرتے ہیں اور اگر ان کا معنی برحق ہوتا ہے اور اللہ کے بارے میں ممتنع نہیں ہوتا ہے، تو اُسے قبول کر لیتے ہیں۔ اور اس مقام کے مناسب حال شرعی لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اسما و صفات کے باب میں مجمل کلمات کی مثالوں میں سے: ’جہت‘ ہے، اس کے اطلاق سے معطلہ اللہ عزّ وجلّ کی صفتِ علو کی نفی مراد لیتے ہیں۔ جب کہ اس سلسلے میں تحقیقی بات یہ کہنا ہے کہ لفظِ جہت کا استعمال اللہ سبحانہ وتعالی کے حق میں ایک بدعت ہے، کتاب یا سنت میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا، نہ ہی امت کے کسی سلف سے یہ ثابت ہے۔ بنابریں اللہ تعالی پر اس لفظ کا اطلاق نفی اور اثبات دونوں طرح سے صحیح نہیں ہے۔ بلکہ اس میں تفصیل طلب کی جائے گی؛ اس لیے کہ اس کے معنی میں حق اور باطل دونوں کا احتمال موجود ہے۔ پس اگر اس سے زیریں جہت مُراد لی گئی ہو یا یہ مُراد لیا گیا ہو کہ وہ ساری جہات میں رہتا ہے یا وہ کسی جہت میں یعنی کسی بھی جگہ نہیں رہتا، تو ان سارے معانی کی اللہ سے نفی کی جائے گی اور یہ سب اس کے حق میں ممتنع قرار پائیں گے۔ اور اگر ’جہت‘ سے مُراد بغیر احاطہ کے اس کے جلال اور عظمت کے شایانِ شان جہتِ علو ہوگا ، تو اسے برحق اور ثابت ماناجائے گا اور اس کا معنی صحیح ہوگا، جس پر نصوص، عقل اور فطرت سلیمہ سب دلالت کناں ہیں۔ اس تفصیل کی روشنی میں اس اطلاق میں حق اور باطل کا پہلو عیاں ہوجاتا ہے۔ رہی بات مجرد لفظ کی، تو اس کا اثبات کیا جائے گا نہ انکار، بلکہ اس کے بدلے شرعی لفظ استعمال کرنا ضروری ہے، اور وہ علو اور فوقیت کا لفظ ہے۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".