الله
أسماء الله الحسنى وصفاته أصل الإيمان، وهي نوع من أنواع التوحيد...
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ عمرو بن عوف کی اولاد کےدرمیان کچھ جھگڑا ہے۔ چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم چند لوگوںکے ساتھ ان کے درمیان مصالحت کرانے کی غرض سے تشریف لے گئے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کچھ رکنا پڑا اور نماز کا وقت ہوگیا۔ تو بلال رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا: اے ابوبکر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں رک گئے ہيں اور نماز کا وقت ہوگیا ہے، تو کيا آپ لوگوں کی امامت کرائیں گے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں اگر تم چاہتے ہو۔ بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کے ليے اقامت کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور تکبير تحریمہ کہہ کر نیت باندھی اور لوگوں نے بھی تکبیر کہی۔ اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے درميان چلتے ہوئےتشریف لے آئے يہاں تک کہ (اگلی)صف ميں کھڑے ہوگئے۔ لوگوں نے تالیاں بجانی شروع کر دیں لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ بحالت نماز کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ جب لوگوں کی تالیاں زیادہ ہوگئیں تو متوجہ ہوئے اور دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جانب اشارہ فرمایا (کہ نماز پڑھاتے رہيں)، ليکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھايا، اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور الٹے پاؤں پیچھے چلے آئے یہاں تک کہ صف میں کھڑے ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا: لوگو! تمھیں کیا ہے کہ جب تمہيں نماز میں کوئی نئی چیز پيش آتی ہے تو تم تالیاں بجانا شروع کرديتے ہو؟ تالیاں بجانا تو خواتین کے ليے (مشروع) ہے، جب نماز میں کسی کو کوئی نئی چیز پيش آئے تو وہ سبحان اللہ کہے اس لیے کہ جو بھی اسے سبحان اللہ کہتے ہوئے سنے گا تو اس کی طرف متوجہ ہوگا۔ (پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:) ’’اے ابو بکر! تمھیں جب میں نے اشارہ کر دیا تھا (کہ نماز پڑھاتے رہو) تو پھر تمھیں لوگوں کو نماز پڑھانے سے کس چیز نے روکا؟‘‘ تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ابو قحافہ کے بيٹے (ابو بکر) کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں لوگوں کو نماز پڑھائے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ عمرو بن عوف کی اولاد کےدرمیان کچھ اختلاف ہے۔ اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض صحابہ کے ساتھ تشریف لے گئے، تو وہاں تاخير ہوگئي اور نماز کا وقت ہوگيا۔ وہ عصر کی نماز تھی جيسا کہ بخاری نے اپنی روايت ميں اس کی صراحت کی ہے۔ صحيح بخاری کي روايت کے الفاظ يہ ہيں: ’’فلما حضرت صلاة العصر أذن وأقام وأمر أبا بكر فتقدم" (جب نماز عصر کا وقت ہوا، تو بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر اقامت کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے (نماز پڑھانے کے ليے) کہا تو وہ آگے بڑھے)۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا: اے ابوبکر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں رک گئے ہيں اور نماز کا وقت ہوگیا ہے، تو کيا آپ لوگوں کی امامت کرائیں گے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں اگر تم چاہتے ہو۔ بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کے ليے اقامت کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور تکبير تحریمہ کہہ کر نیت باندھی اور لوگوں نے بھی تکبیر کہی۔ اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے درميان چلتے ہوئےتشریف لے آئے۔ بخاري نے ایک روايت ميں یہ اضافہ کیا ہے: "يشقها شقاً"(صفوں کو چيرتے ہوئے تشريف لائے)، يہاں تک کہ پہلی صف ميں کھڑے ہوگئے جيسا کہ صحيح مسلم کی روايت ميں ہے: "فخرق الصفوف حتى قام عند الصفّ المقدم" (کہ صفوں کو چيرتے ہوئے آئے يہاں تک کہ اگلی صف ميں کھڑے ہوگئے) جب لوگوں کو نبی کريم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کا علم ہوا تو وہ تالياں بجانے لگے کيونکہ وہ نبی کريم صلی اللہ علیہ وسلم کے پيچھے نماز پڑھنا پسند کرتے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کی تالياں سن رہے تھے ليکن اس کی وجہ کيا تھي؟ اس سے بے خبر تھے۔ اور وہ ادھر اُدھر متوجہ نہيں ہو تے تھے، کيونکہ انہيں علم تھا کہ نماز میں ادھر ادھر متوجہ ہونا ممنوع ہے اور يہ شيطان کا بندے کی نماز ميں سے اچک لينا ہے جيسا کہ ترمذي وغيرہ ميں اس کا ذکر ہے، ليکن جب لوگوں نے بہت زیادہ تالیاں بجائیں تو ابو بکر رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور ديکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا چکے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جانب اشارہ کيا کہ لوگوں کی امامت کراتے رہيں، جيسا کہ صحيح بخاری کي روايت ميں ہے "فأشار إليه أن امكث مكانك" (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اشارہ کيا کہ اپنی جگہ پر برقرار رہيں) ليکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھايا اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ان کے ساتھ جو حسن معاملہ فرمايا تھا، اس پراللہ تعالیٰ کی حمد بيان کی، پھر وہ الٹے پاؤں چند قدم پیچھے آگئے یہاں تک کہ مقتديوں کي صف میں شامل ہوگئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب اپنا رخ کيا اور ارشاد فرمایا: اےلوگو! تمھیں کیا ہے کہ جب تمہيں نماز میں کوئی نئی چیز پيش آتی ہے تو تم تالیاں بجانا شروع کرديتے ہو؟ تالیاں بجانا تو خواتین کے ليے (مشروع) ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کے لیے وضاحت فرمائی کہ اگر نماز میں انھیں کوئی چیز پیش آجائے تو ان کے لیے کیا کرنا مسنون ہے، چنانچہ فرمايا: ’’جب نماز میں کسی کو کوئی نئی چیز پيش آئے تو وہ سبحان اللہ کہے اس لیے کہ جو بھی اسے سبحان اللہ کہتے ہوئے سنے گا تو اس کی طرف متوجہ ہوگا۔ پھر فرمایا: ’’اے ابو بکر! تمھیں جب میں نے اشارہ کر دیا تھا (کہ نماز پڑھاتے رہو) تو پھر تمھیں لوگوں کو نماز پڑھانے سے کس چیز نے روکا؟‘‘ تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ابو قحافہ کے بيٹے (ابو بکر) کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں لوگوں کو نماز پڑھائے۔‘‘ يہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کی تعظيم وتوقير اظہار تھا۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".