الملك
كلمة (المَلِك) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فَعِل) وهي مشتقة من...
جس کا خارج میں وجود ممکن نہ ہو، مگر دماغ اس کا اندازہ کر سکتا ہے۔
"مُمتَنِع" کا لفظ کتاب یا سنت میں وارد نہیں ہوا ہے۔ البتہ فعل 'منع' اور اس کے بعض مشتقات کا ذکر آیا ہے۔ ’مُمتَنِعُ‘: اس سے مراد وہ شے ہے جس کا خارج میں کوئی وجود متصور نہ ہو؛ کیوں کہ اس کی ذات ہی عدم کا تقاضا کرتی ہے۔ ایک قول کے مطابق: ممتنع وہ ہے جس کا عدم ضروری ہو، اور اگر اسے موجود فرض کرلیا جائے تو اس سے کوئی محال لازم آئے، جیسے مثال کے طور پر دو خالق کا وجود، یا اللہ کے لیے شریک کا وجود، کیونکہ عقلی یا شرعی طور پر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ممتنع کی دو قسمیں ہیں: اول: ممتنع لذاتہ: جیسے کسی شے کا موجود و معدوم ہونا ۔ یہ دانشوروں کے اتفاق کے ساتھ خارج میں کچھ بھی نھیں ہے، کیوں کہ ایسی شے کا خارج میں وجود یا وجود اور ثبوت کے مابین فرق کرنے والوں کے نزدیک ثبوت ناممکن ہے۔ اسی طرح ملزوم کا اپنے ان لوازم کے بغیر موجود ہونا جن کے بغیر اس کا وجود ناممکن ہوتا ہے، جیسے بیٹے کا اپنے باپ سے پہلے وجود حالانکہ وہ پیدا ہوچکا ہے۔ دوم : ممتنع لغیرہ : مثلا وہ شے جس کے بارے میں اللہ کا علم یہ ہے کہ وہ نہیں ہوگی اور اس کے نہ ہونے کے بارے میں وہ خبر بھی دے چکا ہے اور لکھ چکا ہے کہ وہ نہیں ہوگی۔ تو اس طرح کی چیز کا وجود نھیں ہوسکتا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ: اس طرح کی شے کا ہونا ممتنع ہے؛ کیونکہ اگر یہ وجود میں آجائے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ اللہ کا علم اس کی معلومات کے خلاف ہے۔ لیکن یہ فی نفسہ ممکن ہے اور اللہ اس پر قادر ہے۔
مُمتَنِع: یہ فعل ’’امْتَنَع‘‘ سے اسم فاعل ہے، اس کا معنی ہے: ناممکن اور محال۔ یہ کلمہ اپنی اصل کے اعتبار سے کسی شے کے حاصل نہ ہونے اور اس کے واقع نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے: ”مَنَعَهُ، يَمْنَعُهُ، مَنْعاً“ (منع کرنا) یہ عطا کرنے کی ضد ہے۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".