المؤمن
كلمة (المؤمن) في اللغة اسم فاعل من الفعل (آمَنَ) الذي بمعنى...
غالی مرجئہ کا ایک فرقہ جو کہ حسین بن محمد النجّار کے پیرو ہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ ایمان تصدیق کا نام ہے جو بڑھتا ہے لیکن کم نہیں ہوتا نیز اللہ تعالی کی صفات اور جنت میں مومنوں کی رؤیت باری تعالی کے منکر ہیں۔
فرقہ نجّاریہ کا شمار ان بڑے گمراہ فرقوں میں ہوتا ہے جو ایمان ، صفات باری تعالی اور تقدیر کے باب میں گمراہی کا شکار ہوگئے۔ یہ لوگ حسین بن محمد بن عبداللہ النجّار کے پیرو ہیں جس کی وفات 220 ہجری میں ہوئی۔ بعض علماء نے اس فرقہ کو جہمیہ میں شمار کیا ہے، بعض نے معتزلہ میں، بعض نے مرجئہ میں اور بعض نے کہا کہ ان کے مستقل اپنے عقائد وافکار ہیں۔ نجاریہ فرقے کے کچھ عقائد یہ ہیں: 1۔ ان کا کہنا ہے کہ ایمان اللہ، اس کے رسولوں اور اس کے فرائض کی معرفت اور صرف اقرار باللسان کا نام ہے۔ چنانچہ یہ لوگ عمل کو ایمان کی تعریف سے خارج کردیتے ہیں۔ 2۔ ان کے بقول ایمان بڑھتا تو ہے لیکن کم نہیں ہوتا۔ 3۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی بذات خود ہر جگہ موجود ہے۔ جو کچھ یہ کہتے ہیں اس سے اللہ پاک اور بالاتر ہے۔ 4۔ یہ اللہ کی صفات جیسے علم، قدرت، سماعت، بصارت وغیرہ کی نفی کرتے ہیں۔ 5۔ ان کے بقول اللہ کا کلام حادث اور مخلوق ہے۔ 6۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان اپنے اعمال میں مجبورِ محض ہے اور اس سلسلے میں اسے کوئی قدرت اور اختیار حاصل نہیں ہے۔ فرقہ نجاریہ تین گروں میں منقسم ہو گیا، اور ہر ایک گروہ دوسرے گروہ کی تکفیر کرتا ہے۔ 1- برغوثیہ: یہ محمد بن عیسی کے پیرو ہیں جس کا لقب برغوث ہے ، یہ عقیدہ خلقِ قرآن کے قائل ہیں۔ 2- زعفرانیہ: یہ زعفرانی کے پیرو ہیں جو کہ مقام رے میں مقیم تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی کلام اس کی ذات کے علاوہ ہے، اور ہر وہ شے جو اس کی ذات کے علاوہ ہے مخلوق ہے ۔ اور جو یہ کہے کہ اللہ کا کلام مخلوق ہے وہ کافر ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ”مخلوق کے لفظ کی تقیید“ (یعنی اللہ کا کلام جو مخلوق کی زبانی نکلتا ہے وہ مخلوق ہے) ضروری ہے حالانکہ دونوں (تقیید کے ساتھ یا بغیر تقیید کے) ایک ہی بات ہے۔ 3- مستدرکہ: یہ وہ گروہ ہے جس کا یہ ماننا ہے کہ انہوں نے ان کے اسلاف (زعفرانیہ) پر جو مخفی تھا اس کا استدراک کیا ہے۔ اس لیے کہ ان کے اسلاف نے ”قرآن مخلوق ہے“ یہ قول مطلقاً بولنے سے منع کیا تھا۔
نجّاریہ یہ نجّار کی طرف نسبت ہے، اس سے مراد فرقہ نجّاریہ ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس فرقے کے لوگ الحسین بن محمد النجّار کے پیرو ہیں۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".